Thursday, August 27, 2009

ڈیرہ بگٹی:شہر ہے یا چھاؤنی؟


ڈیرہ بگٹی کی ویران ہندو بازار میں سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ بلوچستان کے تاریخی شہر کی زندگی کہاں غائب ہوگئی ہے۔ ہندو بازار نواب اکبر بگٹی کے بنگلے کے قریب واقع ہے اور شہر میں فوجی آپریشن کے قریباً تین سال مکمل ہونے کے باوجود وہ بازار دوبارہ آباد نہیں ہوسکا ہے۔
جبکہ شہر میں ڈی سی او کے دفتر اور بنگلے کے قریب درجن بھر دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ ان دوکانوں اور سرکاری دفتروں کے درمیان چوراہے کو پاکستان چوک کا نام دیا گیا ہے۔ چوک پر سیمنٹ کی ایک ڈیزائن بنا دی گئی ہے جس کو پاکستانی پرچم کے سبز اور سفید رنگ دیے گئے ہیں۔
کلِک سوئی: حالات معمول کی طرف مگر خوف برقرار
ڈیرہ بگٹی میں تعینات مختلف حکومتی اہلکار بتاتے ہیں کہ شہر میں فوج کی آمد کے بعد قریبی پہاڑوں پر فوجی اہلکاروں نے ’پاکستان زندہ آباد‘ اور ’پاک فوج چاق و چوبند‘ جیسے نعرے لکھے ہیں۔ ان پہاڑوں پر کچھ تعمیراتی کام اب بھی جاری ہے۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ جشن آزادی قریب ہونے کی وجہ سے شہر کے اوپر سائے کی طرح موجود پہاڑی کو پاکستانی پرچم میں تبدیل کیا جائیگا۔
ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ چند برسوں سے آپریشن میں مصروف فوج کے قصے کہانیاں سنتے ہوئے جب ہم نواب اکبر بگٹی کی قبر کے قریب پہنچے تو میں نے وہاں جانے اور فوٹو وغیرہ بنانے کی اجازت طلب کی۔ مگر حکومتی اہلکاروں نے انکار کر دیا۔ سرکاری جیپ کے ڈرائیور نے رفتار تیز کردی اور قریبی چوراہے پر ایف سی یعنی فرنٹیئر کانسٹبلری کی چوکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔
جس دن ہم ڈیرہ بگٹی میں ایک دن کا مختصر دورہ کر رہے تھے وہ جمعہ کا دن تھا اور عام لوگ نواب اکبر بگٹی کے بنگلے سے ملحقہ مسجد میں نماز ادا کرنے جا رہے تھے۔ مگر ان میں سے کسی نے نواب اکبر بگٹی کی قبر پر جانے اور پھول رکھنے یا فاتحہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے ایسا لگا شاید ان کے ساتھ بھی وہ پابندی لاگو ہوگی جو ہمارے ساتھ کی گئی ہے۔
کوٹ بگٹی کے اندر ان تمام عمارتوں پر گولیوں کی شدید فائرنگ اور گولے بارے کے نشانات واضح ہیں۔ لگتا ہے یہاں شدید آمنے سامنے کا مقابلہ ہوا تھا؟ میری اس رائے کو ایک بلوچ سکیورٹی اہلکار نے رد کرتے ہوئے ایف سی والوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جب نواب صاحب نکل چکے تھے تو عمارتیں خالی تھیں اور انہوں نے اپنے نمبرز بڑھانے کے لیے در و دیوار پر گولیاں برسائی تھیں۔
سفر میں شریک ایک دوست نے افسوس سے کہا کہ یہ کیسی حب الوطنی متعارف کروائی جا رہی ہے ’ان کے پہاڑوں پرفوج اور سبز پرچم اور قبر پر پابندی لگائی جا رہی ہے‘۔
نواب اکبر بگٹی کا بنگلہ جو عام طور پر بند رہتا ہے وہاں داخل ہوتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے کسی آثار قدیمہ کی عمارت کے اندر داخل ہورہے ہیں۔ مرکزی دروازہ مضبوط لوہے کی چادر کا بنا ہوا جو ایک شخص نہیں کھول سکتا۔ وہاں ایک ایف سی اہلکار تعینات تھا جس نے عام سپاہیوں کی طرح دروازے کے قریبی کمرے کی دیواروں پر اپنی خوشخطی بہتر بنانے اور شعر لکھنے کے تجربات کیے ہیں۔
ہمیں مرکزی دروازے کے قریب کھودی گئی خندقیں بھی دکھائی گئیں اور ایک کمرہ جو بقول سکیورٹی افسر نجی جیل تھا وہ بھی دکھایا گیا جہاں قیدیوں کی چپلیں اور رضائیاں تاحال پڑی تھیں۔
نواب اکبر بگٹی کے قلعے نماء کوٹ کے اندر ایک نہیں کئی بنگلے ہیں جن میں سے ایک قدیمی نواب محراب خان کا تعمیر کردہ بنگلہ بھی ہے۔ جبکہ نواب اکبر بگٹی، ان کےصاحبزادے سلیم بگٹی اور پوتے برہمداغ بگٹی کے رہائشی کمرے بھی دکھائے گئے۔
کوٹ بگٹی کے اندر ان تمام عمارتوں پر گولیوں کی شدید فائرنگ اور گولے بارے کے نشانات واضح ہیں۔ لگتا ہے یہاں شدید آمنے سامنے کا مقابلہ ہوا تھا؟ میری اس رائے کو ایک بلوچ سکیورٹی اہلکار نے رد کرتے ہوئے ایف سی والوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جب نواب صاحب نکل چکے تھے تو عمارتیں خالی تھیں اور انہوں نے اپنے نمبرز بڑھانے کے لیے در و دیوار پر گولیاں برسائی تھیں۔
بگٹی نوابوں کے ان رہائشی کمروں میں گزری ہوئی زندگی کے آثار اب بھی نمایاں ہیں۔ کچھ بیڈ رومز کے گدے، ٹائلز لگے باتھ رومز اور ائرکنڈیشنرز موجود ہیں۔ ایک کمرے میں بہت ساری ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور زنانہ کپڑے موجود تھے مگر وہ فرنیچر، کتابیں اور قدیمی تلواریں اور بندوقیں ان بنگلوں سے غائب تھیں جو کبھی ان رہائشی کمروں کی دیواروں کا حسن رہی ہیں۔ وہ نوادرات کہاں ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔
برہمداغ بگٹی کے رہائشی کمرے تین چار تھے مگر ان میں سے ایک کمرے میں تہہ خانہ بھی تھا جہاں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں اور سیڑھی کی آخر میں ایک بڑا سا بھالو رکھا ہوا تھا۔ مگر اس سے کھیلنے والا کوئی موجود نہیں ہے۔
بگٹی نوابوں کے ان رہائشی کمروں میں گزری ہوئی زندگی کے آثار اب بھی نمایاں ہیں۔ کچھ بیڈ رومز کے گدے، ٹائلز لگے باتھ رومز اور ائرکنڈیشنرز موجود ہیں۔ ایک کمرے میں بہت ساری ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور زنانہ کپڑے موجود تھے مگر وہ فرنیچر، کتابیں اور قدیمی تلواریں اور بندوقیں ان بنگلوں سے غائب تھیں جو کبھی ان رہائشی کمروں کی دیواروں کا حسن رہی ہیں۔ وہ نوادرات کہاں ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔
نواب سلیم اکبر بگٹی کے بنگلے کے ساتھ بہت بڑا لان اور چڑیا گھر بھی بنا ہوا تھا مگر اب اس کے صرف آثارموجود ہیں۔ چڑیا گھر کے جانور اور باغیچے کے پھول تو غائب ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں حکومتی اہلکاروں سے دوپہر کے کھانے کے دوران محسوس ہوا کہ ایف سی اہلکاروں کی اس جنگ زدہ شہر میں بھی موجیں ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں ایف سی نے ایک چھوٹا سا کاروبار کیبل سسٹم کا کھول رکھا ہے جہاں بہت صاف ستھرے بھارتی اور پاکستانی چینل دکھائے جاتے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں پاکستان کا کوئی بھی موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ بتایا گیا ہے کہ یو فون والوں نے کوشش کی تھی مگر سکیورٹی حکام نے انہیں منع کردیا اور وہ اپنے ٹاور وغیرہ اکھاڑ کر لے گئے۔ پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک ہے مگر وہ بھی ہفتے میں دو تین دن خراب رہتا ہے۔

ڈیرہ کی طرف سفر کرتے ہوئے راستے میں آپ کو شہری آبادی بہت کم نظرآئے گی
ڈیرہ کی زندگی پاکستان کے دیگر شہروں سے بالکل ہی مختلف ہے۔ ملتان کے ایک سب انسپکٹر کی زبانی کہ جب وہ ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد کشمور میں سے انڈس ہائی وی پر سوار ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں آگئے ہیں ورنہ وہ تو ایک خلاء میں دن بسر کر رہے ہیں۔
شام ہونے سےقبل ہی ہمیں واپسی کا مشورہ دیا گیا۔ اتنی جلدی کا سبب پوچھا تو سکیورٹی اہلکاروں نے بارودی سرنگوں کے خدشے کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شام چھ بجے اور صبح دس بجے تک سوئی ڈیرہ بگٹی سڑک بند کی جاتی ہے تاکہ ممکنہ بارودی سرنگوں سے سڑک کو صاف کیا جائے۔
ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی کی کمی تو آپ کو اس دورے میں محسوس ہوگی مگر حالات ایسے بدلے ہیں کہ ان کی ایک تصویر بھی شہر کے کسی کونے میں موجود نہیں ہے۔
ڈیرہ کی طرف سفر کرتے ہوئے راستے میں آپ کو شہری آبادی بہت کم نظر آئے گی مگر سکیوری فورسز کی گاڑیوں کی آمد و رفت اور چیک پوسٹیں اتنی زیادہ نظر آئیں گے کہ آپ خود سے سوال کرنے لگیں گے کہ یہ شہرہے یا چھاؤنی؟
سڑک کے دونوں اطراف ساتھ چلتے پہاڑوں کے سلسلے میں سے اگر کوئی ہے تو وہ فوج اور ایف سی کی چیک پوسٹیں ہیں جو گزشتہ چند برسوں سے ان پہاڑوں کا مستقل تعارف بن گئی ہیں۔

No comments:

Post a Comment